The Reality of Dead Body Transportation Abroad

The Reality of Dead Body Transportation Abroad

The Reality of Dead Body Transportation Abroad

آج کے دور میں جب لاکھوں لوگ روزگار یا تعلیم کی خاطر بیرون ملک مقیم ہیں، ایک نہایت حساس مسئلہ اکثر سامنے آتا ہے کہ اگر کوئی شخص پردیس میں وفات پا جائے تو اُس کے ورثاء میت کو اپنے وطن واپس لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بظاہر یہ ایک فطری خواہش لگتی ہے لیکن اس کے پسِ پردہ کئی ایسی حقیقتیں پوشیدہ ہیں جن سے عام لوگ ناواقف ہیں۔ یہ تحریر ان ہی حقیقتوں کو اجاگر کرنے کی کوشش ہے تاکہ لوگ بہتر فیصلہ کر سکیں۔

میت کو واپس لانے کا عمومی طریقہ کار

جب کوئی شخص بیرون ملک وفات پاتا ہے تو سب سے پہلے قونصلیٹ یا سفارتخانے کو اطلاع دی جاتی ہے۔ اس کے بعد کئی سرکاری اور قانونی کارروائیاں انجام دینا لازمی ہوتی ہیں جن میں موت کا سرٹیفکیٹ، پولیس رپورٹ، اور مختلف تصدیق شدہ دستاویزات شامل ہوتی ہیں۔ اس کے بعد ایک سب سے اہم اور لازمی مرحلہ آتا ہے جسے "ایمبالمنگ (Embalming)" کہا جاتا ہے۔

ایمبالمنگ (Embalming) کا تفصیلی عمل

ایمبالمنگ ایک ایسا عمل ہے جس کے بغیر کسی بھی میت کو بیرون ملک سے منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ آئیے اس عمل کو مرحلہ وار تفصیل کے ساتھ سمجھتے ہیں:

1. جسم کی تیاری

سب سے پہلے میت کو ایک خصوصی اسٹیل ٹیبل پر لٹایا جاتا ہے۔ پھر اسے مکمل طور پر جراثیم کش محلول سے دھویا جاتا ہے تاکہ بیرونی آلودگی اور بیکٹیریا ختم ہو جائیں۔

2. خون کا اخراج

میت کی بڑی شریانوں کو کاٹ کر خون نکالا جاتا ہے کیونکہ خون جلد سڑنے کا سبب بنتا ہے۔ یہ مرحلہ ناگزیر ہے تاکہ جسم زیادہ دیر تک خراب نہ ہو۔

3. کیمیکلز کا داخل کرنا

خون کے اخراج کے بعد شریانوں میں ایک خاص محلول داخل کیا جاتا ہے جس میں فارملن (Formalin)، میتھانول، اور دیگر کیمیکلز شامل ہوتے ہیں۔ یہ پورے جسم میں گردش کر کے گلنے سڑنے کے عمل کو روک دیتے ہیں۔

4. اندرونی اعضا کی صفائی

پیٹ اور سینے کے اندر موجود اعضا کو ٹروکار (Trocar) کے ذریعے صاف کیا جاتا ہے۔ ان میں موجود رطوبات کو نکال کر اُن حصوں کو بھی کیمیکلز سے بھر دیا جاتا ہے تاکہ اندرونی گلنے کا امکان ختم ہو۔

5. چہرہ اور ظاہری اعضا کی تیاری

آنکھوں اور ہونٹوں کو بند کیا جاتا ہے، جلد پر میک اپ یا روغن کیا جاتا ہے تاکہ میت زیادہ قدرتی لگے۔ یہ مرحلہ بعض اوقات ورثاء کو دکھانے کے مقصد سے بھی کیا جاتا ہے۔

6. جسم کو سیل کرنا

آخر میں میت کو کفن یا کپڑوں میں لپیٹا جاتا ہے اور کبھی کبھار پلاسٹک شیٹ کے اندر بند کر کے تابوت میں رکھا جاتا ہے تاکہ سفر کے دوران کسی قسم کی رطوبت یا بدبو نہ پھیلے۔

7. مذہبی اور اخلاقی پہلو

اگرچہ یہ عمل قانونی طور پر لازمی ہے لیکن مذہبی نقطہ نظر سے یہ میت کے ساتھ ایک غیر فطری اور تکلیف دہ سلوک ہے۔ اسلام میں حکم ہے کہ میت کو جلد از جلد دفنایا جائے، لیکن ایمبالمنگ میں غیر ضروری تاخیر اور جسم میں مداخلت کی جاتی ہے۔

قانونی تقاضے اور اخراجات

The Reality of Dead Body Transportation Abroad یہ بھی ہے کہ ایمبالمنگ کے ساتھ ساتھ تابوت کی خریداری، ہوائی جہاز کا کرایہ، اور دیگر کاغذی کارروائیاں بھی شامل ہوتی ہیں جو لاکھوں روپے تک پہنچ جاتی ہیں۔ اکثر خاندان مالی اور جذباتی بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔

متبادل: مقامی تدفین

کئی اسلامی اسکالرز اور مذہبی رہنما مشورہ دیتے ہیں کہ میت کو وہیں دفنایا جائے جہاں وفات ہوئی ہے۔ یہ نہ صرف کم خرچ ہے بلکہ شریعت کے مطابق بھی زیادہ بہتر ہے۔ اس کے مقابلے میں The Reality of Dead Body Transportation Abroad ایک طویل اور غیر ضروری مرحلہ ہے۔

اختتامیہ

پردیس میں وفات پانے والے عزیز کو وطن لانے کی خواہش فطری ہے مگر The Reality of Dead Body Transportation Abroad ہمیں یہ بتاتی ہے کہ یہ خواہش بسا اوقات میت کے ساتھ ایک غیر فطری اور پیچیدہ سلوک کا باعث بنتی ہے۔ ایمبالمنگ کے عمل اور اس کے مراحل کو جاننے کے بعد ہمیں سوچنا چاہیے کہ اصل عزت اور سکون میت کے لیے جلد از جلد مقامی تدفین میں ہی ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top