Table of Contents
Toggleعبرت انگیز داستان: ہم اپنے دین کے سفیر کیسے بنیں؟
ایک اسلامی ملک میں سفر کے دوران ایک شخص کی نظر ایک اجنبی پر پڑی جو شکل و صورت سے مسلمان نہیں لگ رہا تھا۔ تجسس کے باعث اس نے اس اجنبی سے بات چیت شروع کی اور پوچھا کہ وہ یہاں کس مقصد کے لیے آیا ہے۔ اس اجنبی نے بتایا کہ وہ کسی دوسرے ملک سے تعلق رکھتا ہے اور یہاں اپنے مذہب کو پھیلانے کے لیے آیا ہے۔ وہ یہاں “کئی سالوں” سے مقیم ہے اور سال میں ایک مرتبہ اس کی فیملی اس سے ملنے آتی ہے۔
جب اس مسلمان نے اس سے پوچھا کہ اتنے برسوں میں تم نے کتنے لوگوں کو اپنے مذہب کی طرف راغب کیا، تو اس غیر مسلم نے مسکراتے ہوئے کہا: “ایک بھی نہیں!” یہ سن کر مسلمان نے فتح مندی سے کہا کہ تم ناکام رہے۔ مگر اس اجنبی کا جواب اس کی توقعات کے برعکس اور نہایت چونکانے والا تھا۔ اس نے کہا: “میں نے کسی ایک کو بھی اپنے مذہب کی طرف راغب نہیں کیا، مگر تم آنکھیں کھول کر دیکھو، میں نے کسی مسلمان کو “مسلمان” بھی نہیں چھوڑ۔”
یہ جواب اس مسلمان کے لیے”لمحہ فکریہ تھا اور “ہمارے لیے* بھی، کہ کیا ہم واقعی اپنے دین کے اصولوں پر عمل کر رہے ہیں اور “اسلام” کا حقیقی چہرہ دوسروں کے سامنے پیش کر رہے ہیں؟
عبرت انگیز داستان" اور اس کا پیغام
*عبرت انگیز داستان” ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ اسلام محض زبانی دعووں کا دین نہیں، بلکہ یہ عمل اور کردار کی بنیاد پر قائم ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “بے شک، تم میں سے بہترین وہ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں” (صحیح بخاری)۔ اس حدیث سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمارا کردار اور اخلاق ہی *اسلام* کی اصل شناخت ہے۔ اگر ہم *اسلام* کے پیروکار ہیں تو ہمیں اپنے عمل اور اخلاق سے دین کی عکاسی کرنی چاہیے۔
عبرت انگیز داستان* کے پیغام پر غور و فکر
ہم میں سے کتنے لوگ اپنے عمل اور کردار سے *اسلام* کا حقیقی چہرہ پیش کرتے ہیں؟ *عبرت انگیز داستان* کے ذریعے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ محض نام کے مسلمان بنے رہنا کافی نہیں، بلکہ ہمارے کردار کا مضبوط اور *اسلام* کے اصولوں کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: “میرے نزدیک تم میں سب سے زیادہ پیارا وہ شخص ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہیں” (ترمذی)۔
یہ *عبرت انگیز داستان* ہمیں سکھاتی ہے کہ ہمیں اپنے اخلاق اور کردار کے ذریعے دوسروں کے دل میں *اسلام* کی محبت جگانی چاہیے۔ *اسلام* ہمیں دوسروں کے لیے محبت، رحم دلی، اور نرمی کا درس دیتا ہے۔ اگر ہم اس اصول پر عمل کریں گے تو یقیناً دوسرے لوگ ہماری طرف متوجہ ہوں گے اور *اسلام* کی حقانیت کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور *اسلام*
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ میں ایسے کئی واقعات ہیں جو ہمیں *عبرت انگیز داستان* کا مفہوم سمجھاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں” (صحیح بخاری)۔ اس حدیث میں ہمیں معاشرتی زندگی میں اعلیٰ کردار اور اخلاق کی ہدایت ملتی ہے۔ ہم دوسروں کے ساتھ شفقت اور نرمی سے پیش آئیں، تاکہ لوگ *اسلام* کے قریب آئیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “بے شک اللہ تعالیٰ نرمی کو پسند کرتا ہے اور نرمی پر ایسی چیز عطا کرتا ہے جو سختی پر عطا نہیں کرتا” (صحیح مسلم)۔ اس سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ ہمیں اپنے کردار میں نرمی اور عاجزی کا عنصر شامل کرنا چاہیے۔
.....غور و فکر کے لیے
1. *عبرت انگیز داستان* میں بیان کردہ واقعہ سے ہم نے کیا سبق حاصل کیا؟ کیا ہم واقعی اپنی روزمرہ زندگی میں اسلام کے اصولوں پر عمل کر رہے ہیں؟
2. ہم میں سے کتنے لوگ اپنے کردار اور اخلاق سے دوسروں کو *اسلام* کی طرف مائل کر رہے ہیں، یا کیا ہمارا رویہ دوسروں کو دین سے دور کر رہا ہے؟
3. *عبرت انگیز داستان* ہمیں سوال کرنے کی دعوت دیتی ہے کہ ہم اپنے اعمال اور کردار سے دوسروں پر کیسے اثر ڈال رہے ہیں؟ کیا ہماری شخصیت *اسلام* کا حقیقی چہرہ پیش کر رہی ہے؟
4. کیا ہم خود کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ہمارا کردار دوسروں کے لیے ایک مثبت پیغام بن سکے؟
5. حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ اور احادیث میں ہمیں بارہا اخلاق اور نرمی کا درس ملتا ہے۔ کیا ہم ان تعلیمات کو اپنی زندگی میں لاگو کر رہے ہیں؟
6. کیا ہم اپنی زندگی کو اس طرح بسر کر رہے ہیں کہ لوگ ہماری مثال سے *اسلام* کی حقانیت کو سمجھ سکیں؟
یہ *عبرت انگیز داستان* ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم اپنے کردار اور اخلاق کا جائزہ لیں۔ ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اپنے اعمال اور رویوں کو بہتر بنائیں تاکہ ہم خود کو حقیقی معنوں میں *اسلام* کا سفیر ثابت کر سکیں۔