حضرت عیسی علیه السلام کے تین مبلغین
انطاکیہ ملک شام کا ایک بہترین شہر تھا، جس کی فصیلیں مضبوط دیواروں سے بنی ہوئی تھیں اور پورا شہر پانچ پہاڑوں سے گھرا ہوا تھا۔ اس شہر کی آبادی کا رقبہ بارہ میل تک پھیلا ہوا تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں میں سے دو مبلغوں کو تبلیغ دین کے لیے اس شہر میں بھیجا۔ ایک کا نام “صادق” اور دوسرے کا نام “مصدوق” تھا۔ جب یہ دونوں شہر میں پہنچے تو ایک بوڑھے چرواہے حبیب نجار سے ملاقات ہوئی۔ سلام کے بعد حبیب نجار نے ان سے پوچھا: “آپ لوگ کون ہیں، کہاں سے آئے ہیں، اور آپ کا مقصد کیا ہے؟”
ان دونوں نے جواب دیا: “ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بھیجے ہوئے مبلغین ہیں، اور اس بستی والوں کو توحید اور خدا پرستی کی دعوت دینے آئے ہیں۔”
حبیب نجار نے ان سے کہا: “کیا آپ کے پاس اس بات کی کوئی نشانی ہے؟”
ان دونوں نے جواب دیا: “جی ہاں، ہم اللہ کے حکم سے مریضوں، مادر زاد اندھوں، اور کوڑھیوں کو شفا دیتے ہیں۔”
یہ سن کر حبیب نجار نے کہا: “میرا ایک لڑکا مدتوں سے بیمار ہے۔ کیا آپ اسے تندرست کر سکتے ہیں؟”
ان دونوں نے جواب دیا: “جی ہاں، اسے ہمارے پاس لاؤ۔” چنانچہ انہوں نے مریض لڑکے پر ہاتھ پھیرا، اور وہ فوراً تندرست ہو کر کھڑا ہو گیا۔ یہ خبر شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور بہت سے مریض ان کے پاس جمع ہو گئے، اور سب کو شفا مل گئی۔
اس شہر کا بادشاہ “انطیفا” بت پرست تھا۔ جب اسے ان دونوں کی دعوتِ توحید کا علم ہوا تو وہ غصے سے بے قابو ہو گیا اور ان دونوں کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں کے سردار حضرت شمعون رضی اللہ عنہ کو انطاکیہ بھیجا۔ حضرت شمعون بادشاہ کے دربار میں پہنچے اور کہا: “آپ نے ہمارے دو مبلغوں کو گرفتار کر لیا ہے، کم از کم ان کی بات تو سن لیتے۔”
بادشاہ نے دونوں مبلغوں کو جیل سے بلوایا اور ان سے بات کی۔ انہوں نے بادشاہ کو بتایا کہ وہ لوگوں کو بت پرستی چھوڑ کر خدائے وحدہ کی عبادت کی دعوت دے رہے ہیں۔ جب بادشاہ نے ان سے کوئی نشانی طلب کی، تو ان دونوں نے ایک مادر زاد اندھے کو جو آنکھوں کے بغیر پیدا ہوا تھا، شفا دی۔ ان دونوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا، اور اس کی پیشانی میں آنکھوں کے سوراخ بن گئے۔ پھر انہوں نے مٹی کے دو غلولے بنا کر ان سوراخوں میں رکھ دیے اور دعا کی۔ اللہ کے حکم سے وہ غلولے آنکھیں بن گئے، اور وہ شخص دیکھنے لگا۔
یہ منظر دیکھ کر بادشاہ حیران رہ گیا اور اس نے پوچھا: “کیا تمہارا خدا مردوں کو بھی زندہ کر سکتا ہے؟”
حضرت شمعون نے جواب دیا: “جی ہاں۔”
بادشاہ نے کہا: “میرا ایک دہقان کا لڑکا مر چکا ہے۔ اگر تمہارا خدا اسے زندہ کر دے تو میں ایمان لے آؤں گا۔”
بادشاہ ان تینوں کو لے کر اس لڑکے کی لاش کے پاس گیا۔ ان تینوں نے دعا کی اور اللہ کے حکم سے وہ لڑکا زندہ ہو گیا۔ وہ بلند آواز سے بولا: “میں بت پرست تھا، اور مرنے کے بعد جہنم میں داخل کیا گیا۔ میں تم لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈراتا ہوں اور نصیحت کرتا ہوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کلمہ پڑھو اور ان مبلغین کی بات مانو۔”
یہ سن کر بادشاہ اور اس کے درباری ایمان لے آئے، مگر کچھ لوگ جنہوں نے اپنی عقل و ہوش کھو دی تھی، ایمان نہیں لائے۔ ان لوگوں نے حبیب نجار کو شہید کر دیا۔ ان نافرمانوں پر اللہ کا عذاب آیا اور وہ سب ہلاک ہو گئے۔
اس واقعہ کو قرآن مجید میں یوں بیان کیا گیا ہے:
وَاضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا أَصْحِبَ الْقَرْيَةِ إِذْ جَاءَهَا الْمُرْسَلُونَ إِذْ أَرْسَلْنَا إِلَيْهِمُ اثْنَيْنِ فَكَذَّبُوهُمَا فَعَزَ زَنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوا إِنَّا إِلَيْكُمْ مُرْسَلُونَ قَالُوْا مَا أَنْتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا وَمَا أَنْزَلَ الرَّحْمٰنُ مِنْ شَيْءٍ إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا تَكْذِبُونَ قَالُوا رَبُّنَا يَعْلَمُ إِنَّا إِلَيْكُمْ لَمُرْسَلُونَ وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَاغُ الْمُبِينُ قَالُوا إِنَّا تَطَيَّرُ نَا بِكُمْ لَينْ لَّمْ تَنْتَهُو التَرْجُمَنَّكُمْ وَلَيَنَّكُمْ مِنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ قَالُوا طَابِرُكُمْ مَعَكُمْ أَبِن ذُكِّرْتُمْ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُونَ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَى قَالَ لِقَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا
مَنْ لَّا يَسْلُكُمْ أَجْرًا وَهُمْ مُهْتَدُونَ ( ۲۲ پس : ۱۳ – ۲۱)
“اور ان سے مثال بیان کرو اس شہر والوں کی جب ان کے پاس رسول آئے۔ جب ہم نے ان کی طرف دو بھیجے، پھر انہوں نے ان کو جھٹلایا، تو ہم نے تیسرے سے ان کی مدد کی۔” (یٰسین: 13-21)
درس: اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ تبلیغ دین کرنے والوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن اگر انسان ثابت قدم رہے اور صبر سے کام لے تو اللہ تعالیٰ اسے کامیابی عطا کرتا ہے۔